【سورۂ فاتحہ 】   

  تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، کیونکہ وہ تمام جہانوں کا پالنے والا  ہے، وہ اپنی تمام مخلوق کی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست کرتا ہے، دنیا میں اُس کی رحمت مومن اور کافر دونوں کے لیے ہے اور آخرت میں صرف مومنوں کے لیے ہوگی، قیامت کے دن صرف اسی کی بادشاہی ہوگی۔

   ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔

  (دعا کرتے رہو کہ:) اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہے، اور اُن لوگوں کے راستے سے ہمیں بچا لے جن پر تیرا غضب نازل ہوا ہے اور جو گمراہ ہیں۔

                                                                                                                               سورۂ بقرہ 】               

☚  قرآن کن لوگوں کے لیے ہدایت ہے؟: قرآن کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں، قرآن پرہیزگاروں کے لیے ہدایت کی کتاب ہے، غیب کی باتوں (جیسے جنت، دوزخ، آخرت وغیرہ) پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اللہ کی دیے ہوئے   مال کو اس کے راستے میں خرچ کرنا، تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، یہ سب پرہیزگاروں کے خاص اعمال ہیں۔

☚    عقیدے کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: (۱) مومن (زبان  اور دل سے ایمان قبول کرنے والے)، (۲) کافر (کھلا انکار کرنے والے)، (۳) منافق (زبان سے ایمان لانے والے لیکن دل میں کفر چھپانے والے)، ان تین میں سے صرف مومن اللہ کے نزدیک کامیاب اور سیدھے راستے پر ہیں۔

☚  ضدی مزاج کے لوگ: وہ کافر جو اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں، اللہ نے ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے، کسی بھی قسم کی نصیحت یا عذاب کی دھمکی کا ان کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

☚  منافقین کی حالت: منافق زمین میں فساد پھیلاتے تھے، اور کہتے تھے کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں، صحابہ کو بیوقوف کہتے تھے، ظاہر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے اور دل میں دشمنوں سے دوستی رکھتے تھے، انہوں نے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیا، جس طرح کوئی انسان اپنے آس پاس روشنی ہونے کے باوجود نابینا ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح نبی ﷺ، قرآن اور ہدایت کی باتوں کے قریب ہونے کے باوجود کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے، بلکہ جیسے انسان آسمان کی بجلی اور گرج کی آوازیں سن کر موت کے ڈر سے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے، ویسے ہی قرآن کی آیات (جن میں ان کے کفر کا پردہ فاش کیا جاتا تھا عذاب سے ڈرایا جاتا  تھا) سن کر وہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیتے تھے۔

☚  کائنات کی تخلیق کس کے لیے اور کیوں؟: دنیا کی تمام نعمتیں (زمین، آسمان، بارش، پھل، سبزیاں وغیرہ) اللہ نے ہمارے استعمال کے لیے پیدا کی ہیں، ان کا استعمال کرکے اللہ کی عبادت کرنا ہمارا  اولین فرض ہے۔

☚  قرآن کے انکاریوں کو کھلا چیلنج: قرآن کے انکاریوں کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر تمہیں قرآن کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک ہو، تو اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بنا لاؤ، اور یاد رکھو کہ تم ہرگز یہ چیلنج پورا نہیں کر سکو گے۔

☚  مکھی اور مچھر کی مثال: اللہ تعالیٰ ہدایت کی باتوں کو سمجھانے کے لیے مکھی اور مچھر کی مثال بھی بیان کرتا ہے، ایمان والے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کافر اس کا مذاق اڑا کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔

☚  انسان اللہ کا نائب (خلیفہ) ہے: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیجا، علم کے ذریعے اسے فضیلت دی، فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، وہ قیامت تک زمین پر اللہ کا نائب رہے گا، اللہ کی عبادت، اس کے احکام پر عمل کرنا اور انہیں زمین پر نافذ کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

☚ نماز کس کے لیے آسان اور کس کے لیے مشکل؟: نماز کی پابندی بہت مشکل ہے، ہاں، جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور دل میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ مشکل نہیں۔

☚  بنی اسرائیل کی ناشکری اور نافرمانیاں: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی، لیکن انہوں نے اللہ کی قدرت اور بے شمار نعمتیں دیکھنے کے بعد بھی ناشکری، بت پرستی، اللہ کی نافرمانی اور اس کے احکام کا انکار کیا، انبیاء کو ستاتے رہے، جن میں سے کچھ مثالیں یہ ہیں:

1. حضرت موسیٰؑ سے اللہ کو آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ۔

2. اللہ کی مدد دیکھنے کے بعد بھی گائے کی پوجا میں لگ گئے ۔

3. اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کرنے، فرعون سے نجات کے بعد نئے شہر میں سجدہ کی حالت میں داخل ہونے اور ہفتہ کے دن شکار نہ کرنے کا حکم دیا، جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی۔

4. اللہ نے میدان میں آسمانی خوراک (من و سلویٰ) کا بندوبست کیا، اس کے بدلے پیاز، دال، لہسن، ککڑی وغیرہ کی مانگ کی۔

5. اللہ کے احکام پر عمل سے بچنے کے لیے  حیلے اور چالاکیاں کیں، عمل نہ کرنے کے لیے بے کار سوالات کیے، آخرکار اللہ کے عذاب کے مستحق بنے اور ان کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔

6. اللہ کے نبیوں کو قتل کیا۔

7. حق باتوں کے مقابلے میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارے دلوں پر پردے ہیں،باہر کی کوئی بات ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوسکتی۔ (اللہ نے حقیقت میں ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ہدایت سے محروم کر دیا)۔

8. ان کے علماء دولت اور اپنے اقتدار اور سماجی رتبے  کو بچانے کے لیے حق کو جاننے کے باوجود اس کا انکار کرتے اور تورات کی سچائیوں کو لوگوں سے چھپاتے تاکہ لوگ انہیں چھوڑ کر نبی ﷺ کی پیروی نہ کرنے لگیں۔

9. قرآن نازل ہونے سے پہلے اس کے وسیلے سے دعائیں کرتے تھے، لیکن جب قرآن نازل ہوگیا تو ہٹ دھرمی میں ایمان لانے کے بجائے انکار کیا۔

10. زندگی سے شدید محبت اور موت کو ناپسند کرتے تھے۔

11. حضرت جبرائیلؑ کو اپنا دشمن کہتے تھے۔

12. اللہ کی کتابوں کو چھوڑ کر جادو اور کالے علم کی طرف لگ گئے، ہاروت اور ماروت نامی فرشتوں (جو ان کی آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے) سے جادو سیکھ کر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کرواتے تھے۔

☚  یہودی علماء کی بدحالی: جو لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کے لیے ہلاکت اور دوزخ کا عذاب ہے، جیسے کہ یہودی علماء پیسوں کی خاطر اپنی طرف سے باتیں لکھ کر پوچھنے والوں کو خوش کرنے کے لیے کہتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔

☚  مکمل شریعت پر ایمان لاؤ اور عمل کرو: اپنی مرضی سے کچھ باتوں پر ایمان رکھنا اور کچھ کا انکار کرنا دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب کا سبب ہے، یہودیوں نے اللہ سے وعدہ کرنے کے باوجود اپنا وقار بچانے کے لیے جنگ میں اپنے ہی لوگوں کو قتل کیا اور بعض کو جلا وطن (تڑی پار) کر دیا۔

☚   نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرنے والے: جو الفاظ/جملے نبی ﷺ کی بے عزتی اور توہین پر دلالت کریں انہیں چھوڑ کر ادب والے الفاظ استعمال کرنے چاہیے، یہود اور منافقین ایسے الفاظ استعمال کرکے نبی ﷺ کی توہین کرتے تھے، مثلاً: "راعِنا" لفظ عربی میں "ہماری رعایت رکھو" کے معنیٰ میں آتا ہے، لیکن وہ اس میں 'ع' کو کھینچ کر بولتے تھے، جس کا مطلب ہوتا "ہمارا چرواہا" (نعوذباللہ)۔

☚ "   نسخ" (حکم کی تبدیلی) کے بارے میں: جب تک شریعت مکمل نہ ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے بعض اوقات لوگوں کی طبیعت اور ماحول کے مطابق محدود وقت کے لیے کوئی حکم دیا، پھر اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسا دوسرا حکم دیا، جسے شریعت کی اصطلاح میں "نسخ" کہا جاتا ہے، (جیسے ڈاکٹر مریض کی حالت دیکھ کر دوا تبدیل کرتا ہے)، کافر اس بات کو بھی متنازع بنا دیتے تھے۔

☚  جنت کے حق دار کون ہیں؟: حقیقت میں جنت کے حق دار وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرکے اپنی عبادت کو خالصتاً اللہ کے لیے رکھتے ہیں، کسی خاص قوم (یہودی، عیسائی وغیرہ) کا اس پر کوئی حق نہیں۔

☚  اللہ کے بندوں کو مسجد سے روکنے والے بہت بڑے ظالم ہیں: جو لوگ اللہ کے بندوں کو مسجدوں سے روکتے ہیں اور ان کو تباہ اور ویران کرنے  کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب ہے۔

☚  یہود و نصاریٰ کی سازشیں: یہودی اور عیسائی دونوں مسلمان کو ان کے دین سے ہٹانے کی پوری کوشش کریں گے، ان کی سازشوں سے بچ کر ہدایت پر قائم رہنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

☚  آخرت میں عذاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں: دنیا میں عام طور پر سزا سے بچنے کے چار طریقے ہوتے ہیں:

1. اصل مجرم کی جگہ کسی بے گناہ کو پکڑ لیا جائے۔

2. کوئی بااثر شخص سفارش کر دے۔

3. مال دے کر چھوڑ دیا جائے۔

4. زبردستی مدد کر کے چھڑا لیا جائے،

اللہ کی عدالت میں  ان میں سے کوئی بھی طریقہ فائدہ نہیں دے گا۔

☚  حضرت ابراہیمؑ؛اطاعت کی بہترین مثال: حضرت ابراہیمؑ حکمِ الٰہی کی اطاعت کے تمام امتحانات میں کامیاب ہوئے تو اللہ نے انہیں اپنا خلیل اور لوگوں کا پیشوا بنایا، اور مسلمانوں کو مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھنے کا حکم دیا، جس کی خاص فضیلت ہے۔

☚  ہر عمل کے بعد اللہ سے قبولیت کی دعا مانگو: حضرت ابراہیم اور اسماعیلؑ نے کعبہ شریف کی بنیادوں پر اس کی دیواریں اٹھانے کا  عظیم الشان عمل کیا، لیکن سب سے پہلے اللہ سے قبولیت کی دعا کی، اور اس وقت اپنی اولاد میں اللہ کی فرماں بردار امت اور ایک ایسے نبی کے آنے کی دعا کی جو لوگوں کو اللہ کی آیات سنائے، ان کے دلوں کو گندگیوں سے پاک کرے، اور اللہ کی کتاب و حکمت کی تعلیم دے، حضرت محمد ﷺ اور آپ کی امت کا آنا  حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کی قبولیت ہے۔

☚  اپنی اولاد کے ایمان کی فکر کرو: موت کے وقت بھی اپنی اولاد کے دین اور ایمان کی فکر کرنا انبیاء کا طریقہ ہے، حضرت یعقوبؑ نے موت کے وقت اپنی اولاد کو اسلام پر قائم رہنے کی وصیت کی۔

☚  ملتِ ابراہیمی: حضرت ابراہیمؑ کی ملت کی پیروی کرو، جو نہ یہودی تھے نہ عیسائی، ان کی ملت سے وہی شخص دور جا سکتا ہے جو بے وقوف ہو، اور اللہ کے تمام انبیاء پر فرق کیے بغیر  ایمان رکھو۔

☚  اللہ کا رنگ: اللہ کا رنگ سب سے بہترین ہے، اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگ لو، یعنی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کے احکام کو مدنظر رکھو۔

☚  اپنے اعمال کی فکر کیجیے: گزرے ہوئے لوگ  اپنے اعمال کرکے جا چکے، ہر انسان کو اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ کسی سے اس کے آباؤ اجداد کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کا حساب دینا ہوگا۔